نواب شاہ میں ہمارا ایک گوٹھ ہے۔ اب تو بہت ترقی ہو چکی ہے، آج سے 20سال قبل کوئی سہولت نہ تھی، بیماریوں کی تشخیص بھی نہ ہوتی تھی۔ کوئی بیمار ہو جاتا تو ڈاکٹر کے بجائے کسی مزار پر لے جایا جاتا یا پھر دم درود کا سہارا لیا جاتا تھا۔ میرا اس گوٹھ میں آنا جانا ہوتا تھا۔ ان لوگوں کی طرز زندگی پر انتہائی افسوس ہوتا تھا۔ وہاں اکثر کسی نہ کسی پر جن بھوت کا سایہ رہتا تھا۔ حوا بی بی بھی ہماری رشتہ دار تھیں۔ بچپن سے انہیں مخصوص رنگ کے کپڑوں میں دیکھتے تھے۔ سنتے تھے کہ ان پر کسی جن کا سایہ ہے۔ ایک مرتبہ اتفاق سے میں وہیں موجود تھا جب جن کی آمد ہوئی۔ حوا بی بی مردانہ آواز میں باتیں کر رہی تھیں۔ انہوں نے مشروب مانگا جو ان کے رشتہ داروں نے پہلے سے تیار کر کے رکھا ہوا تھا۔ سٹیل کی پرات میں نیم گرم پانی میں اپلوں کی راکھ گھول کر رکھی گئی تھی جو مشروب کے نام پر دی گئی۔ حوا بی بی اس وقت لوگوں کے مسائل بھی حل کرتی تھیں۔ مثلاً فلاں کی بکری گم ہو گئی تو وہ بتاتیں کہ فلاں نے چرائی ہے۔ اس وقت بکری زندہ بھی ہے یا نہیں۔ بچہ گھر سے بھاگ گیا ہے، کہاں ہے، کس حال میں ہے، واپس آسکتا ہے یا نہیں۔ فلاں کو فلاں بیماری ہے، علاج ممکن ہے یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔ اگرچہ میرا یقین ایسی باتوں پر ہرگز نہیں تھا مگر میں بھی اس ہجوم میں سب سے پیچھے چھپا کھڑا تھا جو اپنے مسائل لیکر حوا بی بی کے پاس آیا تھا۔ حوا بی بی کی چوٹی کسی ناگن کی طرح سیدھی ہو کر سر سے آگے آکر سانپ کی طرح لہرا رہی تھی۔ حوا بی بی کی آنکھیں سرخ انگارہ کی مانند تھیں کہ آنکھ ملانا ناممکن تھا۔ چہرہ انتہائی تنا ہوا اور کمر تختے کی مانند سیدھی۔ دو زانوں بیٹھی ہوئی حوابی بی کی عمر اس وقت 50سے 60سال کے درمیان ہو گی۔ اولاد نہیں تھی، بچے پیدائش کے 3سال بعد مر جاتے تھے پھر شادی کے 13سال بعد شوہر بھی نہ سمجھ میں آنے والی بیماری میں مبتلا ہو کر صرف 48گھنٹوں میں داغ مفارقت دے گیا۔ حوا بی بی نے حلق تر کرنے کے لئے پانی کا اشارہ کیا تو میں نے عجیب منظر دیکھا۔ شیشے کے جگ میں پسی ہوئی سرخ مرچیں گھلی ہوئی تھیں جسے حوا بی بی نے ایک ہی سانس میں پی لیا۔ میں ان سب کو شاید شعبدہ ہی سمجھتا مگر حاضرین میں موجود ایک صاحب بہت دور اندرون سندھ سے سفر کر کے آئے تھے۔ان کا زیور گھر سے غائب ہو گیا تھا۔ حوا بی بی نے اسے اس کے گھر کا نقشہ بتایا۔ اس کے بعد اس نقشے کے مطابق کمرے کی نشاندہی کی جس میں سے زیور غائب ہوا پھر اسے گلیوں سے گھماتی ہوئی سینکڑوں میل دور اس کے بھائی کے گھر لے گئی۔ مکمل محل وقوع بتاتے ہوئے اس جگہ کی نشاندہی کی جس جگہ اس کے بھائی نے زیور دفن کیا ہوا تھا۔ اس کے ٹھیک تین دن بعد اس شخص نے آکر گواہی دی ہاں واقعی زیور برآمد ہو گیا ہے جب کہ اس کا بھائی جس نے یہ حرکت کی تھی وہ بھی جرم قبول کر کے اس کے ساتھ اس حوا بی بی کی قدم بوسی کے لئے آیا تھا جس نے سینکڑوں میل دور بیٹھ کر سراغ لگا لیا تھا۔ اس کے بعد جن صاحب نے اور بھی چھوٹے چھوٹے مسائل حل کئے پھر جن صاحب کی واپسی کا وقت ہوا اور حوا بی بی ایک طرف کو ڈھے گئیں۔ نیم بے ہوشی کی کیفیت تھی، انہیں آرام دہ بستر پر لٹا کر رضائی اوڑھا دی گئی۔ اگرچہ اپریل کا مہینہ تھا مگر انہیں شدید لرزہ طاری تھا۔ کمرے سے رش ختم ہو گیا، حوابی بی کا چہرہ زرد تھا۔ چہرے پرجھریوں کے آثار نظر آنے لگے۔
چہرے اور جسم کا تنائو ختم ہو چکا تھا دو دن تک ان کے کمرے میں کوئی داخل نہ ہوتا تھا۔ دو دن بعد ان کی بے ہوشی کی کیفیت ختم ہوتی اور وہ صدیوں کی مریضہ کی مانند زندگی کے مشاغل میں مصروف ہو جاتیں۔ انہیں اس حالت کا کوئی علم نہ ہوتا تھا۔ شروع شروع میں جب ان پر جن صاحب کا قبضہ ہوا ان کی عمر 30سال کے لگ بھگ تھی۔ ابتدا میں چھوٹی موٹی حرکتیں ہوتی تھیں پھر دس سال تقریباً اسی آنکھ مچولی میں گزر گئے۔ دنیا جہاں کے ڈاکٹروں اور پیروں کو دکھایا گیا مگر ڈاکٹروں نے معذوری کا اظہار کر دیا۔ ویسے بھی غربت کا دور دورہ تھا۔ ایک بار ایک بزرگ کو لایا گیا۔ پنجاب کے کسی علاقے سے انہیں وہاں لے جایا گیا تھا۔ انہوں نے ایک ہی نظر میں دیکھ کرکہا اس عورت سے غلطی ہو گئی ہے اب یہ جن اس کا پیچھا تمام عمر نہیں چھوڑے گا۔ اسے کوئی تکلیف بھی نہ دے گا۔ وقتاً فوقتاً اس پر آمد ہوتی رہے گی، یہ دوسروں کے کام آئے گی۔ کوئی اس کے کام نہ آسکے گا۔ اس کا خاندان مزید بڑھ نہ سکے گا اور آخر اسی کے باعث راہی عدم ہو جائے گی۔ شاید ہی کوئی اس جن سے اسے آزادی دلا سکے۔ کم از کم میرے علم میں نہیں کہ اسکی جان خلاصی ہو گی اور پھر وقت وحالات کے ساتھ ساتھ ان بزرگ کی ہر بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔ ایک مرتبہ خبر آئی کہ حوا بی بی اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں۔ میں نے ان سے تمام واقعات کے بارے میں دریافت کیا تھا تو حوا بی بی نے بتایا تھا مجھے کچھ علم نہیں ہوتا کہ میرے اوپر کیا گزر رہی ہے۔ مجھے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ میں اپنے ہوش وحواس میں نہیں ہوتی۔ بس میں کمزور ہوتی جا رہی ہوں۔ مجھے کوئی بیماری نہیں ہے جس دن سے یہ جن مجھ پر سوار ہوا ہے۔ مجھے آج تک کوئی تکلیف حتیٰ کہ نزلہ، زکام، کھانسی بھی نہیں ہوتی۔ مجھے نہیں پتہ پیٹ درد کیسا ہوتا ہے۔ دست واسہال کی تکلیف کیا ہوتی ہے۔ مجھے سخت ترین سردی اور شدید گرمی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ میں کئی دن کھائے پیئے بغیر گزارتی ہوں۔ مجھے کوئی دکھ بھری خبر رلا نہیں سکتی۔ کوئی خوشی کی خبر ایسی نہیں کہ میں قہقہے لگائوں۔ مجھے اولاد، شوہر، ماں، باپ، بہن، بھائی کسی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ کہیں جانے کو میرا دل نہیں چاہتا۔ کبھی کسی ڈش کی حاجت نہیں ہوتی اگر یہ سب کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا اور حوا بی بی کی کہانی ان کی زبانی اپنے کانوں سے نہ سنی ہوتی تو شاید کبھی یقین نہ کرتا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں